کسی کی یاد کا سایا تھا یا کہ جھونکا تھا
مرے قریب سے ہو کر کوئی تو گزرا تھا
عجب طلسم تھا اس شہر میں بھی اے لوگو
پلک جھپکتے ہی اپنا جو تھا پرایا تھا
مجھے خبر ہو جو اپنی تو تم کو لکھ بھیجوں
ابھی تو ڈھونڈ رہا ہوں وہ گھر جو میرا تھا
کسی نے مڑ کے نہ دیکھا کسی نے داد نہ دی
لہولہان لبوں پر مرے بھی نغمہ تھا
میں بچ کے جاتا تو کس سمت کس جگہ کہ مجھے
کہیں زمیں نے کہیں آسماں نے گھیرا تھا
ذرا پکار کے دیکھوں نہ ان دیاروں میں
مرا خیال ہے اک شخص میرا اپنا تھا
مہک لہو کی تھی یا تیرے پیرہن کی تھی
مرے بدن سے ہیولیٰ سا ایک لپٹا تھا
اداس گھڑیو ذرا یہ پتہ تو دے جاؤ
کہاں گیا وہ خوشی کا جو ایک لمحہ تھا
غزل
کسی کی یاد کا سایا تھا یا کہ جھونکا تھا
اسلم حبیب