EN हिंदी
کسی کی یاد کا سایا تھا یا کہ جھونکا تھا | شیح شیری
kisi ki yaad ka saya tha ya ki jhonka tha

غزل

کسی کی یاد کا سایا تھا یا کہ جھونکا تھا

اسلم حبیب

;

کسی کی یاد کا سایا تھا یا کہ جھونکا تھا
مرے قریب سے ہو کر کوئی تو گزرا تھا

عجب طلسم تھا اس شہر میں بھی اے لوگو
پلک جھپکتے ہی اپنا جو تھا پرایا تھا

مجھے خبر ہو جو اپنی تو تم کو لکھ بھیجوں
ابھی تو ڈھونڈ رہا ہوں وہ گھر جو میرا تھا

کسی نے مڑ کے نہ دیکھا کسی نے داد نہ دی
لہولہان لبوں پر مرے بھی نغمہ تھا

میں بچ کے جاتا تو کس سمت کس جگہ کہ مجھے
کہیں زمیں نے کہیں آسماں نے گھیرا تھا

ذرا پکار کے دیکھوں نہ ان دیاروں میں
مرا خیال ہے اک شخص میرا اپنا تھا

مہک لہو کی تھی یا تیرے پیرہن کی تھی
مرے بدن سے ہیولیٰ سا ایک لپٹا تھا

اداس گھڑیو ذرا یہ پتہ تو دے جاؤ
کہاں گیا وہ خوشی کا جو ایک لمحہ تھا