کسی کی یاد ہے اور حسرتوں کا ماتم ہے
بہت دنوں سے لگاتار آنکھ پر نم ہے
ہو زرد زرد نہ کیوں شمع کی ضیا یارو
کہ اس کو اپنے پگھلنے کا جاں گسل غم ہے
غم و الم کا بھی احساس اب نہیں ہوتا
شعور و فکر و نظر کا عجیب عالم ہے
لہو جلاؤ کچھ اس میں کہ روشنی تو بڑھے
چراغ بزم سر شام ہی سے مدھم ہے
بچی ہے خم میں جو وہ فخرؔ ہے مرا حصہ
کہ میرے جام ہی میں دوسروں سے مے کم ہے

غزل
کسی کی یاد ہے اور حسرتوں کا ماتم ہے
فخر زمان