EN हिंदी
کسی کی یاد ہے اور حسرتوں کا ماتم ہے | شیح شیری
kisi ki yaad hai aur hasraton ka matam hai

غزل

کسی کی یاد ہے اور حسرتوں کا ماتم ہے

فخر زمان

;

کسی کی یاد ہے اور حسرتوں کا ماتم ہے
بہت دنوں سے لگاتار آنکھ پر نم ہے

ہو زرد زرد نہ کیوں شمع کی ضیا یارو
کہ اس کو اپنے پگھلنے کا جاں گسل غم ہے

غم و الم کا بھی احساس اب نہیں ہوتا
شعور و فکر و نظر کا عجیب عالم ہے

لہو جلاؤ کچھ اس میں کہ روشنی تو بڑھے
چراغ بزم سر شام ہی سے مدھم ہے

بچی ہے خم میں جو وہ فخرؔ ہے مرا حصہ
کہ میرے جام ہی میں دوسروں سے مے کم ہے