کسی کی سانس اکھڑتی جا رہی تھی
میں لاچاری سے تکتی جا رہی تھی
جو پھینکی کنکری تھی قبر پر وہ
دعائے خیر کرتی جا رہی تھی
ادھر تھا حسن کا انکار پھر بھی
طلب موسیٰ کی بڑھتی جا رہی تھی
طواف کعبہ کی ایسی خوشی تھی
کہ میری سانس رکتی جا رہی تھی
زمانے کے ستم سہتے ہوئے بھی
زمانیؔ شوق کرتی جا رہی تھی

غزل
کسی کی سانس اکھڑتی جا رہی تھی
آصفہ زمانی