کسی کی منتظر اب دل کی رہ گذار نہیں
مگر مجھے تو کسی طرح بھی قرار نہیں
گلاب کیسے کھلے دشت آرزو میں کوئی
یہ سر زمین ابھی واقف بہار نہیں
سمٹ گیا تھا مرے بازوؤں میں رات گئے
یہ آسمان مری طرح بے کنار نہیں
تری نظر نے کھلائے مری نظر میں گلاب
خود اپنے آپ پہ موسم کو اختیار نہیں
لہولہان مری انگلیاں یہ کہتی تھیں
کسی چٹان میں اب کوئی آبشار نہیں
غزل
کسی کی منتظر اب دل کی رہ گذار نہیں
شبنم وحید