کسی کی جب سے جفاؤں کا سلسلہ نہ رہا
دل حزیں میں محبت کا حوصلہ نہ رہا
دیار حسن میں ملتی نہیں ہے جنس وفا
دل غریب کا اب ان سے واسطہ نہ رہا
ہوائے یاس نے شمع امید گل کر دی
کسی سے اب کوئی شکوہ بھی برملا نہ رہا
مری نظر کا تقاضا بھلا وہ کیا سمجھیں
کہ حسن و عشق میں پہلا سا رابطہ نہ رہا
اجڑ گیا ہے کچھ اس طرح اب دیار وفا
کہیں بھی میری تمنا کا نقش پا نہ رہا
خودی نہ ہو سکی منت کش نشاط وفا
ہمارا ہاتھ کبھی مائل دعا نہ رہا
کلیمؔ کون مصیبت میں کس کا ہوتا ہے
دیار دوست میں کوئی بھی آشنا نہ رہا
غزل
کسی کی جب سے جفاؤں کا سلسلہ نہ رہا
کلیم سہسرامی