کسی کی بات کوئی بد گماں نہ سمجھے گا
زمیں کا درد کبھی آسماں نہ سمجھے گا
سمندروں پہ جو چلتا رہا ہے بے مقصد
کہاں ہیں پاؤں کے نقش و نشاں نہ سمجھے گا
اسے جنون ہے لفظوں سے کھیلنے کا بہت
ہماری سادہ سی لیکن زباں نہ سمجھے گا
یہ سب ہیں اہل سیاست انہی کی سازش ہے
یہی ہے سچ جسے سارا جہاں نہ سمجھے گا
جو میری ظاہری صورت سے کھا رہا ہے فریب
یقین جانیے درد نہاں نہ سمجھے گا
متاع لوح و قلم لوٹتا رہا ہے جو
لہو لہان ہیں کیوں انگلیاں نہ سمجھے گا
کمال ضبط کے با وصف کوئی بھی اعظمؔ
یہ کیسے پھٹ گیا آتش فشاں نہ سمجھے گا
غزل
کسی کی بات کوئی بد گماں نہ سمجھے گا
امام اعظم