کسی کی آنکھوں کا ذکر چھیڑیں عجیب کچھ پر وقار آنکھیں
مگر خدا واسطہ نہ ڈالے بڑی ہی بے اعتبار آنکھیں
نمائشی رسم پردہ داری رہے گی جب تک تو یہ بھی ہوگا
نقاب سرکے گی جب ذرا بھی اٹھیں گی بے اختیار آنکھیں
جہاں جہاں ربط چشم و دل ہے وہاں وہاں بات چل رہی ہے
نہیں تو بزم خموشاں میں ہزار دل ہیں ہزار آنکھیں
نقاب اٹھی تو اپنا عالم نہ ترک جلوہ نہ تاب جلوہ
نظر اٹھی بار بار لیکن جھپک گئیں بار بار آنکھیں
نظر ملا کر نظر بچا کر نظر بدل کر نظر چرا کر
نمونہ بن بن کے کہہ رہی ہیں حقیقت روزگار آنکھیں
کسی سے اظہار مدعا پر مرا وہ خوف و ہراس محشرؔ
کسی کی وہ تیز تیز سانسیں کسی کی وہ بے قرار آنکھیں
غزل
کسی کی آنکھوں کا ذکر چھیڑیں عجیب کچھ پر وقار آنکھیں
محشر عنایتی