کسی کی آنکھ سے سپنے چرا کر کچھ نہیں ملتا
منڈیروں سے چراغوں کو بجھا کر کچھ نہیں ملتا
ہماری سوچ کی پرواز کو روکے نہیں کوئی
نئے افلاک پہ پہرے بٹھا کر کچھ نہیں ملتا
کوئی اک آدھ سپنا ہو تو پھر اچھا بھی لگتا ہے
ہزاروں خواب آنکھوں میں سجا کر کچھ نہیں ملتا
سکوں ان کو نہیں ملتا کبھی پردیس جا کر بھی
جنہیں اپنے وطن سے دل لگا کر کچھ نہیں ملتا
اسے کہنا کہ پلکوں پر نہ ٹانکے خواب کی جھالر
سمندر کے کنارے گھر بنا کر کچھ نہیں ملتا
یہ اچھا ہے کہ آپس کے بھرم نہ ٹوٹنے پائیں
کبھی بھی دوستوں کو آزما کر کچھ نہیں ملتا
نہ جانے کون سے جذبے کی یوں تسکین کرتا ہوں
بظاہر تو تمہارے خط جلا کر کچھ نہیں ملتا
فقط تم سے ہی کرتا ہوں میں ساری راز کی باتیں
ہر اک کو داستان دل سنا کر کچھ نہیں ملتا
عمل کی سوکھتی رگ میں ذرا سا خون شامل کر
مرے ہمدم فقط باتیں بنا کر کچھ نہیں ملتا
اسے میں پیار کرتا ہوں تو مجھ کو چین آتا ہے
وہ کہتا ہے اسے مجھ کو ستا کر کچھ نہیں ملتا
مجھے اکثر ستاروں سے یہی آواز آتی ہے
کسی کے ہجر میں نیندیں گنوا کر کچھ نہیں ملتا
جگر ہو جائے گا چھلنی یہ آنکھیں خون روئیں گی
وصیؔ بے فیض لوگوں سے نبھا کر کچھ نہیں ملتا

غزل
کسی کی آنکھ سے سپنے چرا کر کچھ نہیں ملتا
وصی شاہ