کسی خیال کی حدت سے جلنا چاہتی ہوں
میں لفظ لفظ غزل میں پگھلنا چاہتی ہوں
عجیب موسم دل ہے عجیب مجبوری
نہ خود سے روٹھوں نہ تم سے بچھڑنا چاہتی ہوں
پہن کے خواب قبا ڈھونڈ لوں گی چاند نگر
سہج سہج کسی بادل پہ چلنا چاہتی ہوں
حقیقتیں تو مرے روز و شب کی ساتھی ہیں
میں روز و شب کی حقیقت بدلنا چاہتی ہوں
کبھی تو خود نگری کی فصیل سے باہر
خود اپنے ساتھ سفر پر نکلنا چاہتی ہوں
غزل
کسی خیال کی حدت سے جلنا چاہتی ہوں
عذرا نقوی