کسی خموشی کا زہر جب اک مکالمے کی طرح سے چپ تھا
یہ واقعہ ہے کہ شہر قاتل بجھے دیئے کی طرح سے چپ تھا
سحر کے آثار جب نمایاں ہوئے تو بینائی چھن چکی تھی
قبولیت کا وہ ایک لمحہ مجسمے کی طرح سے چپ تھا
کسی تعلق کے ٹوٹنے کا عذاب دونوں کے دل پر اترا
میں عکس بن کے ٹھہر گیا تھا وہ آئینے کی طرح سے چپ تھا
پڑاؤ ڈالے کسی نے آ کے ہزار کوسوں کی دوریوں میں
ہمارا دل کہ کسی پرندہ کے گھونسلے کی طرح سے چپ تھا
کہیں سے اس کو بھی میری چاہت کی کچھ دلیلیں ملی تھیں شاید
وہ اب کے آیا تو گزری شاموں کے اک سمے کی طرح سے چپ تھا

غزل
کسی خموشی کا زہر جب اک مکالمے کی طرح سے چپ تھا
نجم الثاقب