کسی کے واسطے کیا کیا ہمیں دکھ جھیلنے ہوں گے
شبوں کو جاگنا ہوگا کڑے دن کاٹنے ہوں گے
تری سنگیں فصیلوں کو تو جنبش تک نہیں آئی
ہوائیں لے اڑیں جن کو وہ اپنے جھونپڑے ہوں گے
بھنور تک تو کوئی آیا نہیں میرے لئے لیکن
میں بچ نکلا تو ساحل پر کئی بازو کھلے ہوں گے
خزاں کا زہر سارے شہر کی رگ رگ میں اترا ہے
گلی کوچوں میں اب تو زرد چہرے دیکھنے ہوں گے
ہمیں دنیا کی گردش یہ تماشہ بھی دکھائے گی
گھروں میں تیرگی ہوگی منڈیروں پر دئیے ہوں گے
کوئی دولت نہیں امدادؔ اپنے دست و دامن میں
فقط یادوں کے سکے دل تجوری میں رکھے ہوں گے
غزل
کسی کے واسطے کیا کیا ہمیں دکھ جھیلنے ہوں گے
امداد ہمدانی