کسی کے وعدۂ فردا میں گم ہے انتظار اب بھی
خدا جانے ہے کیوں اک بے وفا پر اعتبار اب بھی
کبھی کی تھی تمنا لالہ و گل کی نگاہوں نے
رلاتی ہے لہو کے رنگ میں فصل بہار اب بھی
ترے قول و عمل میں فرق ملتا ہے مجھے زاہد
زباں پر لفظ توبہ ہے نگہ میں ہے خمار اب بھی
خزاں کے بعد اس امید پر گلشن نہیں چھوڑا
یہ ممکن ہے کہ چل جائے ہوائے خوشگوار اب بھی
ہمارے دل کو جس نے شمسؔ ویرانی عنایت کی
اسی کو یاد کرتی ہے نگاہ بیقرار اب بھی
غزل
کسی کے وعدۂ فردا میں گم ہے انتظار اب بھی
شمس فرخ آبادی