کسی کے شکوہ ہائے جور سے واقف زباں کیوں ہو
غم دل آگ تو لگ ہی چکی لیکن دھواں کیوں ہو
محبت میں وصال و ہجر کی تمییز کیا معنی
بساط عشق پر بازیچۂ سود و زیاں کیوں ہو
جبیں سائل تھی نادم ہے مگر اے سجدۂ آخر
مری محرومیوں سے بے تعلق آستاں کیوں ہو
خداوندا چمن میں تو نشیمن ہی نشیمن ہیں
نظر میں برق کی صرف ایک شاخ آشیاں کیوں ہو
روایات کہن کو عزم نو خاطر میں کیا لائے
ضمیر کارواں پابند میر کارواں کیوں ہو
یہ مانا ایک آنسو ہے مگر اے سعئ ضبط غم
سر مژگاں یہ اک آنسو بھی دل کا ترجماں کیوں ہو
زمانہ جب بھلا ہی بیٹھا اعجازؔ حزیں تجھ کو
کوئی اب مہرباں کیوں ہو کوئی نا مہرباں کیوں ہو
غزل
کسی کے شکوہ ہائے جور سے واقف زباں کیوں ہو
اعجاز وارثی