EN हिंदी
کسی کے سنگ در سے اپنی میت لے کے اٹھیں گے | شیح شیری
kisi ke sang-e-dar se apni mayyat le ke uTThenge

غزل

کسی کے سنگ در سے اپنی میت لے کے اٹھیں گے

مضطر خیرآبادی

;

کسی کے سنگ در سے اپنی میت لے کے اٹھیں گے
یہی پتھر پئے تعویذ تربت لے کے اٹھیں گے

گئے وہ دن کہ ہم گرتے تھے اور ہمت اٹھاتی تھی
وہ دن آیا کہ اب ہم اپنی ہمت لے کے اٹھیں گے

اگر دل ہے تو تیرا درد الفت ساتھ جائے گا
کلیجا ہے تو تیرا داغ حسرت لے کے اٹھیں گے

یہ پیدا ہوتے ہی رونا صریحاً بدشگونی ہے
مصیبت میں رہیں گے اور مصیبت لے کے اٹھیں گے

خط قسمت مٹاتے ہو مگر اتنا سمجھ لینا
یہ حرف آرزو ہاتھوں کی رنگت لے کے اٹھیں گے

مجھے اپنی گلی میں دیکھ کر وہ ناز سے بولے
محبت سے دبے جاتے ہیں حسرت لے کے اٹھیں گے

ترے کوچے میں کیوں بیٹھے فقط اس واسطے بیٹھے
کہ جب اٹھیں گے اس دنیا سے جنت لے کے اٹھیں گے

ترا راز محبت لے کے آئے لے کے جائیں گے
امانت لے کے بیٹھے ہیں امانت لے کے اٹھیں گے

ہمیں اس نام جپنے کا مزا اس روز آئے گا
تمہارا نام جس دن زیر تربت لے کے اٹھیں گے

دم آخر ہم آنچل ان کا مضطرؔ کس طرح چھوڑیں
یہی تو ہے کفن جس کی بدولت لے کے اٹھیں گے