کسی کے ساتھ گیا مدتیں گزار آیا
بڑے دنوں میں کہیں جا کے پھر قرار آیا
نہیں ہے خواب یہ سچ ہے نہ اعتبار آیا
یہ کیا ہوا کہ انہیں اور مجھ پہ پیار آیا
گیا تھا آنکھوں میں امید کی کرن لے کر
میں اس کے شہر سے لوٹا تو اشک بار آیا
وہ تھا جہاز کا پنچھی نہ میں جہاز کوئی
نہ کام صبر ہی آیا نہ انتظار آیا
فراز کوہ کا رستہ بھی تھا کڑا لیکن
خیالؔ کانپ اٹھی روح جب اتار آیا

غزل
کسی کے ساتھ گیا مدتیں گزار آیا
پریہ درشی ٹھا کرخیال