EN हिंदी
کسی کے ساتھ اب سایہ نہیں ہے | شیح شیری
kisi ke sath ab saya nahin hai

غزل

کسی کے ساتھ اب سایہ نہیں ہے

شین کاف نظام

;

کسی کے ساتھ اب سایہ نہیں ہے
کوئی بھی آدمی پورا نہیں ہے

مرے اندر جو اندیشہ نہیں ہے
تو کیا میرا کوئی اپنا نہیں ہے

کوئی پتہ کہیں پردہ نہیں ہے
تو کیا اب دشت میں دریا نہیں ہے

تو کیا اب کچھ بھی در پردہ نہیں ہے
یہ جنگل ہے تو کیوں خطرہ نہیں ہے

کہاں جاتی ہیں بارش کی دعائیں
شجر پر ایک بھی پتہ نہیں ہے

درختوں پر سبھی پھل ہیں سلامت
پرندہ کیوں کوئی ٹھہرا نہیں ہے

کھلا ہے پھول ہر گملے میں لیکن
کوئی چہرہ تر و تازہ نہیں ہے

دھواں ہی ہے فقط گاڑی کے پیچھے
یہاں کیا ایک بھی بچہ نہیں ہے

سمجھنا ہے تو دیواروں سے سمجھو
ہمارے شہر میں کیا کیا نہیں ہے