EN हिंदी
کسی کے نقش قدم کا نشاں نہیں ملتا | شیح شیری
kisi ke naqsh-e-qadam ka nishan nahin milta

غزل

کسی کے نقش قدم کا نشاں نہیں ملتا

باسط بھوپالی

;

کسی کے نقش قدم کا نشاں نہیں ملتا
وہ رہ گزر ہوں جسے کارواں نہیں ملتا

قدم قدم پہ تری راہ میں فلک حائل
مجھے تلاش سے بھی آسماں نہیں ملتا

انہیں طریقۂ لطف و کرم نہیں معلوم
ہمیں سلیقۂ آہ و فغاں نہیں ملتا

عروس دہر کو غازہ بھی چاہئے لیکن
غبار جادۂ امن و اماں نہیں ملتا

تجھے یہ غم کہ خوشی کو تری ثبات نہیں
مجھے گلہ کہ غم جاوداں نہیں ملتا

دھڑک رہا ہے ہر اہل وفا کے سینے میں
ہمارا درد بھرا دل کہاں نہیں ملتا

سبھی کو دعوئے مہر و وفا ہے دنیا میں
جو مہرباں نہ ہو وہ مہرباں نہیں ملتا

غم حیات کے پر ہول قہقہوں کے سوا
کہیں سے اپنا جواب فغاں نہیں ملتا

دل شکستہ کو لے جائیے کہاں باسطؔ
دماغ نخوت شیشہ گراں نہیں ملتا