کسی کے میں لباس عاریت کو کیا سمجھتا ہوں
پھٹے کپڑوں کو اپنی خلعت دیبا سمجھتا ہوں
جہاں دیوانہ کوئی اپنے سائے سے الجھتا ہے
اسے زلف مسلسل کا تری سودا سمجھتا ہوں
میں گو مجنوں ہوں پر مطلب نہیں کچھ کوہ و صحرا سے
سواد شہر ہی کو خیمۂ لیلےٰ سمجھتا ہوں
ہزاروں باغ دنیا میں تماشے میں نے دیکھے ہیں
دو رنگی کو زمانے کی گل رعنا سمجھتا ہوں
نہیں مے خانۂ عالم میں مجھ سا مست و بے خود ہے
کہ شور حشر کو بھی قلقل مینا سمجھتا ہوں
عطا کی ہے خدا نے چشم وحدت بیں مجھے جیسے
جسے قطرہ سمجھتا تھا اسے دریا سمجھتا ہوں
ہمیں رہ رہ کے یاد آتا ہے ہنگام عتاب اس کا
دکھا کر آنکھ کہنا رہ تو جا کیسا سمجھتا ہوں
خط مشکیں کو ریحاں جانتا ہوں باغ عالم میں
تری چشم سیہ کو نرگس شہلا سمجھتا ہوں
برابر غیر کے بھی مرتبہ میرا نہیں افسوس
اگرچہ آپ کہتے ہیں تجھے اپنا سمجھتا ہوں
مقام امتحاں میں دیکھ لینا ایک دن صاحب
رقیب رو سیہ ٹھہرے گا کیا اتنا سمجھتا ہوں
نمود اتنی کہاں تھی شاعری میں میری اے غافلؔ
میں اس شہرت کو فیض صحبت گویاؔ سمجھتا ہوں
غزل
کسی کے میں لباس عاریت کو کیا سمجھتا ہوں
منور خان غافل