کسی کے دست عنایت کا وہ دیا ہوں میں
جلا دیا ہے کسی نے سلگ رہا ہوں میں
دیار لطف میں ایسا شکستہ پا ہوں میں
لپٹ کے کانٹوں سے روئے وہ آبلہ ہوں میں
مجھے مری ہی رعایت نے کر دیا محروم
پکڑ پکڑ کے جو دامن کو چھوڑتا ہوں میں
مجھی میں کون خطا ہے کہ جو کسی میں نہیں
اک آدمی ہوں یہی بس نہ اور کیا ہوں میں
تھکے ہوئے ہیں مرے حوصلے کہاں چل کے
ذرا سا رک کے یہاں سانس لے رہا ہوں میں
صنم کدوں کی نہ پڑ جائے ہر جگہ بنیاد
جگر کے ٹکڑے زمیں پر بکھیرتا ہوں میں
گیا تو بھول گیا کوئی درد زخم کا حال
وہ کشمکش ہے کہ غم سے لپٹ رہا ہوں میں
غزل
کسی کے دست عنایت کا وہ دیا ہوں میں
خلیل راضی