EN हिंदी
کسی کا یوں تو ہوا کون عمر بھر پھر بھی | شیح شیری
kisi ka yun to hua kaun umr-bhar phir bhi

غزل

کسی کا یوں تو ہوا کون عمر بھر پھر بھی

عارف حسن خان

;

کسی کا یوں تو ہوا کون عمر بھر پھر بھی
نہ جانے کیوں تھا یقیں تیرے پیار پر پھر بھی

ہزار بار مرے دل کو اس نے ٹھکرایا
مجھے ہے اس سے امید وفا مگر پھر بھی

تمہارے نقش قدم پر گیا میں سر بہ سجود
کسی کے آگے جھکایا نہ تھا یہ سر پھر بھی

میں اس کی چاہ میں دونوں جہان چھوڑ چلا
وہ بے وفا نہ مرا ہو سکا مگر پھر بھی

تمہاری بزم سے نکلے تو پھر ملی نہ اماں
بھٹکتے پھرتے رہے گرچہ در بہ در پھر بھی

نہ تو ہی تو وہ رہا اور نہ میں ہی میں وہ رہا
ہے نقش نام ترا میرے قلب پر پھر بھی

میں اپنی جان بھی اس پر لٹا کے دیکھ چکا
اسے عزیز رہا مجھ سے مال و زر پھر بھی

میں تجھ کو چھوڑ کے سر پھوڑنے کہاں جاؤں
مرے نصیب میں ہے تیرا سنگ در پھر بھی

بنا سکے نہ ترے دل میں اپنا گھر عارفؔ
لٹا دیا تری چاہت میں اپنا گھر پھر بھی