EN हिंदी
کسی کا کوئی ٹھکانہ ہے کوئی ٹھور بھی ہے | شیح شیری
kisi ka koi Thikana hai koi Thor bhi hai

غزل

کسی کا کوئی ٹھکانہ ہے کوئی ٹھور بھی ہے

شاذ تمکنت

;

کسی کا کوئی ٹھکانہ ہے کوئی ٹھور بھی ہے
یہ زندگی ہے کہیں اس کا اور چھور بھی ہے

جھلا رہا ہے یہ گہوارہ کون صدیوں سے
ارے کسی نے یہ دیکھا کہ کوئی ڈور بھی ہے

ہر آدمی ہے یہاں جبر و اختیار کے ساتھ
مگر یہ دیکھ کسی کا کسی پہ زور بھی ہے

سنے گا کوئی تو پھر کچھ اسے سنائی نہ دے
کہ ہر سکوت کے پردے میں ایک شور بھی ہے

وہ حسن عشق صفت ہے وہ عشق حسن نما
وہ میرا چاند بھی ہے وہ مرا چکور بھی ہے

شکار کر کہ دلوں کہ سنہرے جنگل میں
ضرور رقص میں بدمست کوئی مور بھی ہے

ہزار جان سے ہم ایک ہیں یہ سچ ہے شاذؔ
رواج و رسم کا لیکن دلوں میں چور بھی ہے