کسی جھوٹی وفا سے دل کو بہلانا نہیں آتا
مجھے گھر کاغذی پھولوں سے مہکانا نہیں آتا
میں جو کچھ ہوں وہی کچھ ہوں جو ظاہر ہے وہ باطن ہے
مجھے جھوٹے در و دیوار چمکانا نہیں آتا
میں دریا ہوں مگر بہتا ہوں میں کہسار کی جانب
مجھے دنیا کی پستی میں اتر جانا نہیں آتا
زر و مال و جواہر لے بھی اور ٹھکرا بھی سکتا ہوں
کوئی دل پیش کرتا ہو تو ٹھکرانا نہیں آتا
پرندہ جانب دانہ ہمیشہ اڑ کے آتا ہے
پرندے کی طرف اڑ کر کبھی دانہ نہیں آتا
اگر صحرا میں ہیں تو آپ خود آئے ہیں صحرا میں
کسی کے گھر تو چل کر کوئی ویرانہ نہیں آتا
ہوا ہے جو سدا اس کو نصیبوں کا لکھا سمجھا
عدیمؔ اپنے کئے پر مجھ کو پچھتانا نہیں آتا
غزل
کسی جھوٹی وفا سے دل کو بہلانا نہیں آتا
عدیم ہاشمی