EN हिंदी
کسی گل میں نہیں پانے کی تو بوئے وفا ہرگز | شیح شیری
kisi gul mein nahin pane ki tu bu-e-wafa hargiz

غزل

کسی گل میں نہیں پانے کی تو بوئے وفا ہرگز

تاباں عبد الحی

;

کسی گل میں نہیں پانے کی تو بوئے وفا ہرگز
عبث اپنا دل اے بلبل چمن میں مت لگا ہرگز

طبیبوں سے علاج عشق ہوتا ہے نپٹ مشکل
ہمارے درد کی ان سے نہیں ہونے کی دوا ہرگز

تجا گھر ایک اور سارے بیاباں کا ہوا وارث
کوئی مجنوں سا عیارا نہ ہوگا دوسرا ہرگز

بہار آئی ہے کیوں کر عندلیبیں باغ میں جاویں
قفس کے در کے تئیں کرتا نہیں صیاد وا ہرگز

نہ تھے عاشق کسی بیداد پر ہم جب تلک تاباںؔ
ہمارے دل کے تئیں کچھ درد و غم تب تک نہ تھا ہرگز