کسی گوشے میں دنیا کے مکیں ہوتے ہوئے بھی
وہ میرے ساتھ رہتا ہے نہیں ہوتے ہوئے بھی
مسلسل آزمائش میں مجھے ظالم نے رکھا
کیا میں نے نہیں سجدہ جبیں ہوتے ہوئے بھی
مسلسل مارتے رہتے ہیں شب خوں ذہن و دل پر
عزیزاں رفتگاں زیر زمیں ہوتے ہوئے بھی
گزاری ہم نے ساری زندگی عشق بتاں میں
مکمل اس کی وحدت پر یقیں ہوتے ہوئے بھی
لیے پھرتا ہے قاتل ہاتھ میں خنجر برہنہ
مہیا پیرہن میں آستیں ہوتے ہوئے بھی
میں ذرہ خاک کا ہوں وہ ستارہ آسماں کا
وہ مجھ سے دور ہے میرے قریں ہوتے ہوئے بھی
نہ جانے کون سی مٹی کا عابدؔ بھی بنا ہے
ہمیشہ خوش نظر آیا حزیں ہوتے ہوئے بھی

غزل
کسی گوشے میں دنیا کے مکیں ہوتے ہوئے بھی
محمد عابد علی عابد