کسی دشت کا لب خشک ہوں جو نہ پائے مژدۂ آب تک
کبھی آئے بھی مری سمت کو تو برس نہ پائے سحاب تک
میں طلب کے دشت میں پھر چکا تو یہ راز مجھ پہ عیاں ہوا
مری تشنگی کے یہ پھیر ہیں کہ جو آب سے ہیں سراب تک
تجھے جان کر یہ پتا چلا تو مقام دید میں اور تھا
کئی مرحلے ہیں فریب کے مری آنکھ سے مرے خواب تک
میں وہ معنی غم عشق ہوں جسے حرف حرف لکھا گیا
کبھی آنسوؤں کی بیاض میں کبھی دل سے لے کے کتاب تک
غزل
کسی دشت کا لب خشک ہوں جو نہ پائے مژدۂ آب تک
سلیم احمد