کسی بت کی ادا نے مار ڈالا
بہانے سے خدا نے مار ڈالا
جفا کی جان کو سب رو رہے ہیں
مجھے ان کی وفا نے مار ڈالا
جدائی میں نہ آنا تھا نہ آئی
مجھے ظالم قضا نے مار ڈالا
مصیبت اور لمبی زندگانی
بزرگوں کی دعا نے مار ڈالا
انہیں آنکھوں سے جینا چاہتا ہوں
جن آنکھوں کی حیا نے مار ڈالا
ہمارا امتحاں اور کوئے دشمن
کسی نے بے ٹھکانے مار ڈالا
پڑا ہوں اس طرح اس در پہ مضطرؔ
کوئی دیکھے تو جانے مار ڈالا
غزل
کسی بت کی ادا نے مار ڈالا
مضطر خیرآبادی