کسی بھی زہر سے مجھ کو نہیں کوئی پرہیز
مگر ہے شرط بس اتنی کہ ہو نہ شہد آمیز
وہ ڈر گیا جو نظر آئی فاختہ اس کو
وہ جس کے ہاتھ ہمیشہ سے ہی رہے خوں ریز
میں خود سمجھ نہ سکا آج تک یہ اپنا طلسم
کہ مجھ میں ہے کبھی فرہاد اور کبھی پرویز
نمی پسینوں کی ملتی رہی ہے اس کو اور
ازل سے باقی ہے اب تک جو خاک ہے زرخیز
یہ تشنگی تھی مری جس نے سرنگوں نہ کیا
تھے بے شمار وہاں جام اور سب لبریز
کہ ایک روز میں کہہ لی ہے میں نے ایک غزل
اس ایک شخص کی قربت ہے کیا غزل انگیز

غزل
کسی بھی زہر سے مجھ کو نہیں کوئی پرہیز
قمرالدین