کسی بھی شہر کا موسم سہانا چھوڑ دیتے ہیں
گراں ہو جائیں تو ہم آب و دانہ چھوڑ دیتے ہیں
فقط اک بھول نے ماں باپ کو القط کیا گھر میں
کہ بیٹے جب سیانے ہوں کمانا چھوڑ دیتے ہیں
میاں بیوی کے رشتے اعتمادوں کی امانت ہیں
مگر اک آنکھ دونوں غائبانہ چھوڑ دیتے ہیں
انہیں معلوم ہیں مجبور جیبوں کے تقاضے سب
وہ ان میں خوب صورت سا بہانہ چھوڑ دیتے ہیں
ہماری فاقہ مستی آسماں کے پیٹ بھرتی ہے
ہم اپنے پاؤں کے نیچے خزانہ چھوڑ دیتے ہیں
غزل
کسی بھی شہر کا موسم سہانا چھوڑ دیتے ہیں
خورشید اکبر

