کسی بے درد کو ظلم و ستم کا شوق جب ہوگا
یہ میرا ایک دل لاکھوں دلوں میں منتخب ہوگا
ہمارا اور ان کا سامنا محشر میں جب ہوگا
وہ جلسہ وہ سماں وہ معرکہ بھی کچھ عجب ہوگا
کوئی زندہ رہے دنیا میں کیا اگلی امیدوں پر
ابھی تو ہجر کا رونا ہے ہوگا وصل جب ہوگا
لڑکپن جا چکا ان کا جوانی آنے والی ہے
کبھی مجھ پر جفا ہوتی تھی لیکن قہر اب ہوگا
تمہارے وصل کی ساعت ہمیشہ ٹلتی رہتی ہے
خدا جانے کہاں ہوگا کسے معلوم کب ہوگا
ابھی لذت نہیں اس کو ملی آزار پنہاں کی
جو ہوگا بھی تو ہوتے ہوتے دل ایذا طلب ہوگا
وہ اپنے وعدۂ دیدار سے پھرنے کو پھر جائیں
مگر یہ تو سمجھ لیں بے وفا کس کا لقب ہوگا
مجھے اظہار الفت پر یہ ان سے داد ملتی ہے
تمہارا عشق اک دن میری ذلت کا سبب ہوگا
بھری محفل میں ان کو چھیڑنے کی کیا ضرورت تھی
جناب نوحؔ تم سا بھی نہ کوئی بے ادب ہوگا
غزل
کسی بے درد کو ظلم و ستم کا شوق جب ہوگا
نوح ناروی