کسی بہانے سہی دل لہو تو ہونا ہے
اس امتحاں میں مگر سرخ رو تو ہونا ہے
ہمارے پاس بشارت ہے سبز موسم کی
یقیں کی فصل لگائیں نمو تو ہونا ہے
میں اس کے بارے میں اتنا زیادہ سوچتا ہوں
کہ ایک روز اسے روبرو تو ہونا ہے
لہولہان رہیں ہم کہ شاد کام رہیں
شریک قافلۂ رنگ و بو تو ہونا ہے
کوئی کہانی کوئی روشنی کوئی صورت
طلوع میرے افق سے کبھو تو ہونا ہے
غزل
کسی بہانے سہی دل لہو تو ہونا ہے
منظور ہاشمی