EN हिंदी
کسے خبر تھی کہ ذہن و دل میں عجیب سا انتشار ہوگا | شیح شیری
kise KHabar thi ki zehn-o-dil mein ajib sa intishaar hoga

غزل

کسے خبر تھی کہ ذہن و دل میں عجیب سا انتشار ہوگا

عرش صہبائی

;

کسے خبر تھی کہ ذہن و دل میں عجیب سا انتشار ہوگا
وہ وقت آئے گا بے یقینی کا چار جانب غبار ہوگا

یہ صاف ظاہر ہے زندگی میں سکوں کی ہوگی نہ کوئی صورت
کہیں خزاں کی اجارہ داری کہیں فریب بہار ہوگا

یہاں کا آئین ہی عجب ہے کہ طرز نو کا یہ مے کدہ ہے
جو بیکسوں کا لہو پیے گا وہ مے کشوں میں شمار ہوگا

نہ چھیڑئیے نغمۂ محبت کہ یہ ہے دور فریب کاری
دلوں کی خوش رنگ وادیوں میں کدورتوں کا غبار ہوگا

چلے تو ہو عرشؔ راہ حق پر لئے ہوئے دل میں عزم لیکن
جہاں جہاں بھی قدم پڑیں گے وہیں وہیں خار زار ہوگا