کسے خبر ہے میں دل سے کہ جاں سے گزروں گا
جو بار بار صف دشمناں سے گزروں گا
یقین بھی تجھے آئے گا میری ہستی پر
یہی نہیں کہ میں تیرے گماں سے گزروں گا
ہر ایک شے مری جانب ہی ملتفت ہوگی
میں تیرے ساتھ اگر شہر جاں سے گزروں گا
اندھیری رات کا مجھ کو ذرا بھی خوف نہیں
کئی چراغ جلیں گے جہاں سے گزروں گا
زمین زاد ہوں سیفیؔ زمیں پہ رہنا ہے
نہ کہکشاں نہ کسی آسماں سے گزروں گا
غزل
کسے خبر ہے میں دل سے کہ جاں سے گزروں گا
بشیر سیفی