کسے ہم اپنا کہیں کوئی غم گسار نہیں
ہمیں جب اپنے پرائے پہ اعتبار نہیں
ہم اپنے دور کی سچائیوں کو لکھتے ہیں
قلم ہمارا کسی کا تو مستعار نہیں
جو بے وفا تھے وہی لوگ پا گئے اعزاز
مری وفاؤں کا اب تک کہیں شمار نہیں
ہمارے سر پہ برس جائیں گے کہاں پتھر
تنک مزاجیٔ موسم کا اعتبار نہیں
دعائیں دے کے جو بچوں کو شہر بھیجیں گے
اب ایسے گاؤں میں کوئی بزرگوار نہیں
ہزار مفلس و نادار میں سہی رہبرؔ
خدا کا شکر کسی کا بھی قرض دار نہیں
غزل
کسے ہم اپنا کہیں کوئی غم گسار نہیں
حسیب رہبر