کس اجالے کا نشاں ہیں ہم لوگ
کن اندھیروں میں رواں ہیں ہم لوگ
نور خورشید کو الزام نہ دو
صبح کا خواب گراں ہیں ہم لوگ
جیسے بھٹکا ہوا راہی ہو کوئی
یوں ہی ہر سو نگراں ہیں ہم لوگ
کبھی آوارگیٔ نکہت گل
کبھی زنجیر گراں ہیں ہم لوگ
دور تک دشت جنوں ہے جاویدؔ
آبلہ پا گزراں ہیں ہم لوگ
غزل
کس اجالے کا نشاں ہیں ہم لوگ
فرید جاوید