کس توقع پہ شریک غم یاراں ہوں گے
یاد ہم کس کو بھلا اے دل ناداں ہوں گے
رونق بزم بہت اب بھی سخنداں ہوں گے
ان میں کیا ہم سے بھی کچھ سوختہ ساماں ہوں گے
ہم پہ جو بیت گئے بیت گئی بیت گئی
کیا کہیں آپ سنیں گے تو پشیماں ہوں گے
یاد اک غم ہے کہ فریاد فسوں ہے کہ جنوں
درد کے رشتے ہیں مشکل سے نمایاں ہوں گے
تھم گئے اشک کہ آنکھوں میں چمک لوٹ آئے
یہ دیے شام ڈھلے گی تو فروزاں ہوں گے
یاس کی رات میں ہر آس نے دم توڑ دیا
جانے کب صبح کے آثار نمایاں ہوں گے
تو سلامت کہ تری بزم میں اے ارض وطن
زندگی ہے تو کبھی ہم بھی غزل خواں ہوں گے
ہاں کبھی تو نظر آئیں گے نظرؔ وہ گلیاں
جن میں خورشید کئی اب بھی خراماں ہوں گے
غزل
کس توقع پہ شریک غم یاراں ہوں گے
نظر حیدرآبادی