کس طرح چبھتے ہوئے خار سے خوشبو آئے
پھول ہوں لفظ تو اظہار سے خوشبو آئے
ننھے غنچوں سے کھلا رہتا ہے آنگن دل کا
یوں مہکتی ہوں کہ گھر بار سے خوشبو آئے
گردش وقت کی تاریکی سے ڈرنا کیسا
ساتھ ہو وہ تو شب تار سے خوشبو آئے
جذبۂ دل میں جو سچائی کی دھڑکن ابھرے
عشق لوبان بنے پیار سے خوشبو آئے
بس وہی لوگ محبت کے ہیں قابل میناؔ
جن کے اعمال سے کردار کی خوشبو آئے
غزل
کس طرح چبھتے ہوئے خار سے خوشبو آئے
مینا نقوی