کس طرف سے آ رہی ہیں درد کی پروائیاں
آگ سی دینے لگی ہیں بھیگتی انگنائیاں
میں کہاں تھا جب فرشتوں نے خوشی انساں کو دی
کیوں مرے حصے میں آئیں صرف اشک آرائیاں
یہ شباب و حسن تیرا اور یہ ناز و ادا
ٹوٹتی ہیں دونوں ہاتھوں سے تری انگڑائیاں
میں کہاں جا کر چھپوں اے گردش دوراں بتا
ڈھونڈ لیتی ہیں مجھے ہرجا مری رسوائیاں
اک شکستہ ساز ہے اور اک صدائے درد دل
ہم ہیں تم ہو بیکسی ہے غم ہے اور تنہائیاں
مجھ کو چارہ دو دوا مت دے میں جی کر کیا کروں
یہ دعا کر مجھ کو ڈس لیں موت کی پرچھائیاں
ہم نے کیا سوچا تھا اور سیمابؔ یہ کیا ہو گیا
بجتے بجتے رک گئیں کیوں سب کی سب شہنائیاں
غزل
کس طرف سے آ رہی ہیں درد کی پروائیاں
سیماب سلطانپوری