کس شے کا سراغ دے رہا ہوں
اندھے کو چراغ دے رہا ہوں
دیتے نہیں لوگ دل بھی جس کو
میں اس کو دماغ دے رہا ہوں
بخشش میں ملی تھیں چند کلیاں
تاوان میں باغ دے رہا ہوں
تو نے دیئے تھے جسم کو زخم
میں روح کو داغ دے رہا ہوں
زخموں سے لہو ٹپک رہا ہے
قاتل کو سراغ دے رہا ہوں
غزل
کس شے کا سراغ دے رہا ہوں
راشد مفتی