کس سے پیمان وفا باندھتے ہو
وقت کا آب رواں ہے یہ تو
کوئی سن لے گا تو چرچا ہوگا
اپنے دل سے بھی یہ باتیں نہ کرو
کوئی بجتی ہوئی شہنائی ہے
جھانک کر پردۂ گل میں دیکھو
جب ستاروں کے کنول کھلتے ہیں
جھلملاتا ہے تمہارا پرتو
دل کے آنگن میں کرن ناچے گی
چاندنی رات میں آواز تو دو
زخم پھر سے نہ ہرے ہو جائیں
مجھ سے یوں پیار کی باتیں نہ کرو
آپ کا ہمدم دیرینہ ہوں
سر اٹھاؤ مری جانب دیکھو

غزل
کس سے پیمان وفا باندھتے ہو
جمیل ہمدم