کس سلیقے سے وہ مجھ میں رات بھر رہ کر گیا
شام کو بستر سا کھولا صبح کو تہہ کر گیا
وقت رخصت تھا ہمارے باہر اندر اتنا شور
کچھ کہا تھا اس نے لیکن جانے کیا کہہ کر گیا
قتل ہوتے سب نے دیکھا تھا بھرے بازار میں
یہ نہ دیکھا خوں مرا کس کی طرف بہہ کر گیا
ڈوبنا ہی تھا سو ڈوبا چاند اس کے وصل کا
رات کو لیکن ہمیشہ کی شب مہیا کر گیا
صرف مٹی ہو کے رہنے میں تحفظ ہے یہاں
جس نے کوشش کی مکاں ہونے کی بس ڈھہ کر گیا
چال جب بھی مل نہیں پائی زمیں کی چال سے
کیسا کیسا سر بلند آیا تھا اور ڈھہ کر گیا
دکھ کا آئینہ الٹ دیتا ہے ہر احساسؔ کو
خوش گیا اتنا ہی کوئی جتنے دکھ سہہ کر گیا
غزل
کس سلیقے سے وہ مجھ میں رات بھر رہ کر گیا
فرحت احساس