کس راہ پہ ہیں رواں دواں ہم
جائیں گے خبر نہیں کہاں ہم
اک بار فریب کھا گئے تھے
اب تک ہیں کسی سے بد گماں ہم
یوں تیری نگاہ سے گرے ہیں
گویا تھے متاع رائیگاں ہم
رستوں کی خبر نہ منزلوں کی
کیا جانئے آ گئے کہاں ہم
دل میں تھیں کچھ ایسی حسرتیں بھی
تجھ سے جو نہ کر سکے یہاں ہم
گزری ہے قفس میں عمر لیکن
بھولے نہیں یاد آشیاں ہم
ہر حال خوشی انہی کی چاہی
کرتے رہے پاس دوستاں ہم
پیش آئے نہ جانے کیا سفر میں
گھر سے تو چلے ہیں شادماں ہم
اک منزل بے نشاں کی دھن میں
شفقتؔ نہ پھرے کہاں کہاں ہم
غزل
کس راہ پہ ہیں رواں دواں ہم
شفقت کاظمی