EN हिंदी
کس قوت‌ بے درد کا اظہار ہے دنیا | شیح شیری
kis quwwat-e-be-dard ka izhaar hai duniya

غزل

کس قوت‌ بے درد کا اظہار ہے دنیا

نظیر صدیقی

;

کس قوت‌ بے درد کا اظہار ہے دنیا
ہر دل کو گلا ہے کہ دل آزار ہے دنیا

لوگ اس کو کہا کرتے ہیں اچھا بھی برا بھی
کیا خوب کہ دونوں کی سزاوار ہے دنیا

ملتا ہی نہیں کوئی دل زار کا پرساں
میرے لیے اک محفل اغیار ہے دنیا

ہر سنگ میں دنیا کو نظر آتا ہے اک بت
اور ایسے ہر اک بت کی پرستار ہے دنیا

یہ حشر یہ ہنگامہ نہیں آج پہ موقوف
سچ یہ ہے کہ صدیوں ہی سے بیمار ہے دنیا

نیکی کوئی کرتا ہو تو کروٹ نہیں لیتی
نیت ہو گناہوں کی تو بیدار ہے دنیا

کس طرح کریں اس کی محبت پہ بھروسا
اے دوست قیامت کی اداکار ہے دنیا

اس طرح بھی دنیا کا گلا کرتے ہیں گویا
معصوم ہے انسان گنہ گار ہے دنیا

دنیا میں برا وقت تو آتا ہے سبھی پر
اب خود ہی برے وقت سے دو چار ہے دنیا

رہ رہ کے برستی ہیں عداوت کی گھٹائیں
لگتا ہے کہ گرتی ہوئی دیوار ہے دنیا

کیا کہئے اسے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا
اک وادیٔ پر خار کہ گلزار ہے دنیا

جنت بھی اسی میں ہے جہنم بھی اسی میں
گہوارۂ‌ ہر عشرت و آزار ہے دنیا

ڈوبے ہوئے تاروں کا یہ ماتم نہیں کرتی
چڑھتے ہوئے سورج کی پرستار ہے دنیا