کس قیامت کی گھٹن طاری ہے
روح پر کب سے بدن طاری ہے
کون یہ سایہ فگن ہے آخر
میرے سورج پہ گہن طاری ہے
بات کیا اور نئی ہم سوچیں
جب وہی چرخ کہن طاری ہے
صرف ہم ہی تو نہیں ٹوٹے ہیں
راستوں پر بھی تھکن طاری ہے
شاذؔ اڑتا ہی چلا جاتا ہوں
کیسی خوشبو کی لگن طاری ہے
غزل
کس قیامت کی گھٹن طاری ہے
زکریا شاذ