کس قیامت کا نہ جانے وہ اندھیرا ہوگا
جس نے خورشید جہاں تاب کو گھیرا ہوگا
ہاں اسی پردۂ ظلمات سے ابھرے گی سحر
پنجۂ شب سے کہاں قید سویرا ہوگا
کس سے اس حسن کا افسانہ کہوں جس کے لیے
میں نے سوچا بھی نہیں تھا کبھی میرا ہوگا
رات بھر دی ہے در دل پہ کسی نے دستک
وہ یہ کہتا ہے نہیں کوئی لٹیرا ہوگا
آج جی بھر کے اسے دیکھ لے کوثرؔ سر بام
جانے ان گلیوں میں پھر کب ترا پھیرا ہوگا

غزل
کس قیامت کا نہ جانے وہ اندھیرا ہوگا
کوثر نیازی