کس قیامت کا ہے بازار ترے کوچے میں
بکنے آتے ہیں خریدار ترے کوچے میں
تو وہ عیسیٰ ہے کہ اے نبض شناس کونین
ابن مریم بھی ہے بیمار ترے کوچے میں
اذن دیدار تو ہے عام مگر کیا کہیے
چشم بینا بھی ہے بے کار ترے کوچے میں
جس نے دیکھا ہو نظر بھر کے ترا حسن تمام
کوئی ایسا بھی ہے اے یار ترے کوچے میں
آرزوؔ سا کبھی دیکھا ہے کوئی کافر عشق
یوں تو ہیں سینکڑوں دیں دار ترے کوچے میں
غزل
کس قیامت کا ہے بازار ترے کوچے میں
آرزو سہارنپوری