کس قدر مجھ کو ناتوانی ہے
بار سر سے بھی سرگرانی ہے
چشم تر سے جو خوں فشانی ہے
ناوک عشق کی نشانی ہے
سارے قرآن سے اس پری رو کو
یاد اک لفظ لن ترانی ہے
جب ہوا رتبۂ فنا فی اللہ
غم نہیں گر جہان فانی ہے
ہے ہر اک شعر یار کی تصویر
فکر اپنی خیال مانی ہے
کیوں نہ ہوں عاشق لب جاناں
چشمۂ آب زندگانی ہے
اس کی رفتار کے لکھے ہیں جو وصف
کیا مری طبع میں آتی ہے
ناصحا عاشقی میں رکھ معذور
کیا کروں عالم جوانی ہے
کس سے دوں اس صنم کو میں تشبیہ
کب خدائی میں اس کا ثانی ہے
نہ مری زخم پر رکھو مرہم
میرے قاتل کی یہ نشانی ہے
سر کٹائیں گے شمع ساں خاموش
گر یہی اپنی بے زبانی ہے
ہم نہیں شمع ہوں جو اشک فشاں
کار عشاق جاں فشانی ہے
منہ نے گھر میں مرے رکھا اس کو
یہ بھی تائید آسمانی ہے
دل بھی اس سے اٹھا نہیں سکتے
ناتوانی سی ناتوانی ہے
قد موزوں کے عشق میں گویاؔ
رات دن شغل شعر خوانی ہے
غزل
کس قدر مجھ کو ناتوانی ہے
گویا فقیر محمد