EN हिंदी
کس قدر اضطراب ہے یارو | شیح شیری
kis qadar iztirab hai yaro

غزل

کس قدر اضطراب ہے یارو

دانش فراہی

;

کس قدر اضطراب ہے یارو
زندگی اک عذاب ہے یارو

دل مرا صاف آئنہ کی طرح
ایک سادہ کتاب ہے یارو

میں ہوں ناکام عشق میں لیکن
کیا کوئی کامیاب ہے یارو

جب سے دیکھا ہے اس نے ہنس کے مجھے
دل کی حالت خراب ہے یارو

غم جاناں تو راحت دل ہے
فکر دنیا عذاب ہے یارو

اس نے شاید کیا ہے یاد مجھے
دل میں کیوں اضطراب ہے یارو

پوچھتے کیا ہو اس کا نقش و نگار
آپ اپنا جواب ہے یارو

سن سکوں گا نہ داستان عشق
اب کہاں مجھ میں تاب ہے یارو

کیا کرے گا کوئی خراب اسے
جو ازل سے خراب ہے یارو

کچھ بتاؤ کہ آج دانشؔ پر
کیوں ستم بے حساب ہے یارو