کس نے کہا تھا شہر میں آ کر آنکھ لڑاؤ دیواروں سے
سایہ سایہ بھٹک بھٹک اب سر ٹکراؤ دیواروں سے
گھات کی پلکیں جھپک رہے ہیں کھل کھل کر انجان دریچے
زخموں کے اب پھول سمیٹو پتھر کھاؤ دیواروں سے
قطع نظر کے بعد بھی اکثر بڑھ جاتی ہے دل کی دھڑکن
آنکھ اٹھائے کیا بنتا ہے دل ہی اٹھاؤ دیواروں سے
رستوں کی تہذیب یہی ہے دائیں بائیں چھوڑ کے چلنا
سیدھے ہی گھر جانا ہے تو منہ نہ لگاؤ دیواروں سے
سوچ گھٹن میں ڈوب نہ جائے توڑو یہ سنکوچ کے گھیرے
کھلی ہوا میں پر پھیلاؤ جان بچاؤ دیواروں سے
لمس کی لذت نرمی سختی دونوں کا گڈمڈ رشتہ ہے
پاس ہی آ کر تم سمجھوگے دور نہ جاؤ دیواروں سے
یہ بھی کیسی ریت سمے کی بنیادوں سے محرابوں تک
خون کے ناطے سب کچھ دے کر کچھ بھی نہ پاؤ دیواروں سے

غزل
کس نے کہا تھا شہر میں آ کر آنکھ لڑاؤ دیواروں سے
رام پرکاش راہی