کس مست ادا سے آنکھ لڑی متوالا بنا لہرا کے گرا
آگے تو ہیں راہیں اور کٹھن دل پہلے ہی ٹھوکر کھا کے گرا
آگے جو بڑھا تھرائے قدم وہ ہنس جو دیے شرما کے گرا
بے ہوش نہیں ہشیار تھا میں اٹھنے کا سہارا پا کے گرا
دل شوق کے جوش میں دوڑ چلا اور جوش تو ہوتا ہے اندھا
در بند پڑا تھا قسمت کا ٹکر جو لگی تیورا کے گرا
جتنی بھی دل کی ضرورت تھی بس اتنی ہی ہمت و طاقت تھی
رستے کی کھکھیڑیں جھیل گیا پاس آتے ہی میں چکرا کے گرا
کیا عشق کی منزل بھی ہے کڑی بندھ بندھ کر ہمت ٹوٹ گئی
جو ایک قدم چل کر سنبھلا وہ دو قدم آگے جا کے گرا
سلگی ہوئی ہے غم کی بھٹی دل کیوں نہ پگھل کے بنے پانی
جو قطرہ آنسو ہو کے بہا لہرا کے چلا تیورا کے گرا
وہ نالہ فلک سے ٹکرایا وہ آرزوؔ اک تارا ٹوٹا
دشمن کی طرف جو لپکا تھا شعلہ وہ مجھی پر آ کے گرا
غزل
کس مست ادا سے آنکھ لڑی متوالا بنا لہرا کے گرا
آرزو لکھنوی