کس لیے صحرا کے محتاج تماشا ہوجیے
چاک کیجے سینے کو اور آپھی صحرا ہوجیے
کشتۂ لب ہو کے کیجے جاوداں اب زندگی
کیوں عبث منت کش خضر و مسیحا ہوجیے
چشم احول سب کو دیکھے ہے زیادہ آپ سے
عین بینائی ہے گر اس طرح بینا ہوجیے
کب تلک سرگشتہ رہیے دن کو مثل گرد باد
رات کو جوں شمع جلنے کو مہیا ہوجیے
اس قدر ہم دل گرفتہ ہیں کہ مشکل ہے بہت
اس کے بند جامہ وا ہونے پہ بھی وا ہوجیے
مجھ سے یہ محجوبی اور دشمن سے ایسا اختلاط
شرم کیجے بے وفائی میں نہ رسوا ہوجیے
آنا یوں تیوری چڑھائے منہ بنائے فائدہ
گر یہی صورت ہے مت تشریف فرما ہوجیے
بو الہوس کا یوں ہدف کیجے نشانہ تیر کا
غافل اپنی قدر سے بے درد اتنا ہوجیے
جوں جرس بام و در ہر خانہ سے اٹھے گا شور
مت سفر سے حشر برپا ساز سحا ہوجیے
خانہ ویراں کر کے دیوانے بنے تس پر رضاؔ
کچھ نہ ہوئے پھر بھلا کیا کیجئے کیا ہوجیے
غزل
کس لیے صحرا کے محتاج تماشا ہوجیے
رضا عظیم آبادی